Sec Bottom Mockup

وضو میں پاؤں دھونے کے بجائے موزوں پر مسح کرنا

از تحریر: مفتی محمد وسیم ضیائ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِااللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ



نماز بغیر وضو کے جائز نہیں یہاں تک کہ نماز کو کم تر سمجھتے ہوئے وضو کو ترک کرکے نماز ادا کرنے کو فقہاء کرام نے کفر تک لکھاہے۔ وضو کے چار فرائض ہیں، جن کے بغیر وضو نہیں ہوگا۔ چار فرائض کا تذکرہ اللہ رب العزت نےقرآن میں اس انداز میں پیش کرتا ہے۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمْ وَاَیۡدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوۡا بِرُءُ وۡسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیۡنِ


ترجمہ: اے ایمان والو جب نماز کے لیے کھڑے ہونا چاہو، تو اپنا منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھوؤ۔
(سورۃ المائدہ پارہ 06 آیت 06 )


الحدیث


حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا : ایک سفر میں رسول ﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے ، آپ ﷺ ہم تک اس وقت پہنچے جب نماز کا وقت تنگ ہوگیا۔ نَحْنُ نَتوَضَّاُ ، فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلٰی اَرْجُلِنَا ، فَنَادٰی بِاَعْلٰی صَوْتِہٖ وَیْلٌ لِّلْاعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَیْنِ اَوْثَلَاثاً۔ ہم وضو کررہے تھے تو اپنے پاؤں پر مسح کرنے لگے، آپ ﷺ نے دیکھا تو بلند آواز سےدو یاتین دفعہ فرمایا ایسی ایڑیوں کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔
(بخاری شریف ، حدیث 60 ، مسلم شریف ، حدیث 460 )
مذکورہ آیت کے ظاہر اور حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ پاؤں کو دھویا جائے اور موزوں پر مسح نہ کیا جائے ، لیکن موزوں پر مسح کرنے کے حوالے سے ٹھوس دلائل موجود ہیں اس لیے امت کے نزدیک بالاتفاق موزوں پر مسح کرنا جائز ہے

اب میں آپ کے سامنےموزوں پر مسح کرنے پر چند دلائل پیش خدمت کرتا ہوں

عَنْ ھَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: رَاَیْتُ جَرِیْرَ بْنَ عَبْدِاللہِ بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلٰی خُفَّیْہِ ، ثُمَّ قَامَ فَصَلّٰی فَسُئِلَ ، فَقَالَ : رَاَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ صَنَعَ مِثْلَ ھٰذَا

یعنی: ہمام بن حارث سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جریر بن عبد اللہ (صحابی ) رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ نے پیشاب کیا، پھر وضو اور اپنے موزوں پر مسح کیا پھر کھڑے ہو کر نماز ادا کی تو آپ رضی اللہ عنہ سےسوال کیا گیا عملِ مذکور کے متعلق تو حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسی طرح نبی کریم ﷺ کو کرتے ہوئے میں نے دیکھا۔
(صحیح بخاری، حدیث 387 ، صحیح المسلم ، حدیث 510 )

عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ المُغِیْرَۃِ ، عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ فِی سَفَرِ ، فَأَ ھْوَیْتُ لِاَنْزِعَ خُفَّیْہِ ، فَقَالَ دَعْھُمَا، فَإِنِّی اَدْخَلْتُھُمَا طَاھِرَتَیْنِ فَمَسَحَ عَلَیْھِمَا

(صحیح بخاری ، حدیث 206 )
یعنی: عروہ بن مغیرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا میں سفر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا پس میں نے ارادہ کیا کہ آپ ﷺ کے موزے وضو کے لئے اتاروں، تو رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا : اتارنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں نے پاکیزگی پر موزے پہنے تھے ، پس رسول اللہ ﷺ نے موزوں پر مسح کیا۔

روی ابن المنذر عن الحسن البصری قال : حدثنی سبعون رجلا من اصحاب رسول اللہ ﷺ انہ مسح علی الخفین


یعنی : ابن منذر حضرت خواجہ حسن بصری سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا مجھے ستر صحابہ کرام نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنےموزوں پر مسح کیا

روی عن الحسن البصری انہ قال: ادرکت سبعین بدریا من الصحابۃ ، یرون المسح علی الخفین۔


(حاشیہ ہدایہ )
یعنی : حضرت خواجہ حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے فرمایا میں نے ایسے ستر بدری صحابہ کرام کو پایا جو موزوں پر مسح کرنےکو جائز سمجھتے ہیں۔
(البنایۃ شرح ہدایہ )
عن ابی حنیفۃ انہ قال : ماقلت بالمسح حتی جاء فی مثل ضوء النہار۔ یعنی : حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : موزے پر مسح کرنا جائز قراردیتاہوں کیوں کہ اس کے دلائل روزروشن کی طرح واضح ہیں۔
(البنایۃ شرح ہدایہ )
عن ابی حنیفۃ : من انکر المسح علی الخفین یخاف علیہ الکفر ۔ یعنی : امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جو شخص موزوں پر مسح کا انکار کرتا ہے اس پر کفر کا خوف ہے۔
(البنایۃ شرح ہدایہ )

مرّوجہ اونی یا سوتی موزوں پر مسحمرّوجہ اونی یا سوتی موزوں پر بالاتفاق مسح جائز نہیں ہے ۔ حضرت علامہ ابن نجیم وصال (970ھ) رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: وَکَانَ رَقِیْقاً غیر جائز اتفاقاً ۔ یعنی: اور اگر موزے پتلے ہوں تو بالاتفاق مسح جائز نہیں۔
(البحرالرائق شرح کنزالدقائق جلد 01 صفحہ 317 )مزید اگلے صفحہ پر لکھتے ہیں
لَایَجُوْزُ الْمَسْحُ عَلَی الْجَوْرَبِ الرَّقِیْقِ مِنْ غَزْلٍ اَوْ شَعْرٍ بِلَا خِلَافٍ ۔ یعنی : ایسے موزے جو پتلے ہیں جیسے سوت یا بال کے ایسے موزوں پر مسح بغیر اختلاف کے ناجائز ہے۔
(البحرالرائق شرح کنزالدقائق جلد 01 صفحہ 318 )حضرت علامہ کاسانی الحنفی (المتوفی 587ھ ) رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیںفَاِنْ کَانَا رَقِیْقَیْنِ یَشِفَّانِ الْمَاءَ ، لَایَجُوْزُ الْمَسْحُ عَلَیْھِمَا بِالْاِجْمَاعِ ۔ یعنی : اگر موزے اتنے پتلے ہوں کہ پانی چَھن کرجِلد تک پہنچ جائے ایسے موزوں پر مسح بالاجماع ناجائزہے۔
(بدائع صنائع فی ترتیب الشرائع جلد 01 صفحہ 10 )
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : سوتی یا اونی موزے جیسے ہمارے بلاد میں رائج ہیں اُن پر مسح کسی کے نزدیک دُرست نہیں ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 04 صفحہ 346 )
حضرت فقیہ اعظم امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ہندوستان میں جو عموماً سوتی یا اُونی موزے پہنے جاتے ہیں اُن پر مسح جائز نہیں، اُن کو اُتار کر پاؤں دھونا فرض ہے۔


کون سے موزوں پر مسح جائز ہے

تین قسم کے موزوں پر مسح جائز ہے۔ (۱) چمڑے کے موزے جن سے پاؤں ٹخنوں تک چھپے رہیں۔ (۲) وہ موزے جن میں صرف تَلا چمڑے کالگا ہو۔ (۳) چمڑے کے علاوہ کسی اور چیز کے بنے ہوئے موزے ہوں ،لیکن وہ موزے دبیز اور موٹے ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ اقسام کو صاحبِ ہدایہ نے اس انداز میں پیش کیا۔ ان یکونا مجلدین او منعلین وقالا یجوز اذا کانا ثخینین ۔ یعنی: دونوں موزے چمڑے کے ہوں یا صرف تلوا چمڑے کاہو، اور صاحبین فرماتے ہیں اگر ان دونوں کے علاوہ موزے ہوں تو دبیزاور موٹے ہونا ضروری ہے۔ (الہدایہ ، جلد 01 صفحہ 202 المؤلف : حضرت علی بن ابو بکر مرغینانی وصال 593 ھ رحمۃ اللہ علیہ )

دبیز اور موٹے ہونے سے مراد

دبیز اور موٹے ہونے سےمراد ایسے موزے جن کے اندر چمڑے کے اوصاف پائے جائیں فقہائے کرام نے تین اوصاف بیان کئے ہیں۔ (۱) موزے پنڈلی پر بغیر بانڈھے ٹہرے رہیں۔ (۲) جوتوں کے بجائے اُن موزوں کو پہن کر سفر کیاجائے تو موزے ناپھٹیں۔ (۳)موزوں پر جب پانی دالا جائے تو چَھن کر فوراً جِلد تک نہ پہنچے۔ مذکورہ تین اوصاف سے متصف موزوں پر مسح جائز ہے
(فتاویٰ رضویہ (ملخصاًٍ) جلد 04 صفحہ 347 )

مروّجہ سوتی یا اونی جرابوں پر مسح کرنے کے دلائل پر بحث


جولوگ مروّجہ سوتی یا اونی جرابوں پر مسح کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں اُن کے چند دلائل پر مختصر جوابات پیش کرتاہوں ۔ عَنِ المُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَی الْجَوْرَبَیْنِ ۔ یعنی : حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیشک رسول
اللہ ﷺ نے وضوفرمایااور جرابوں پر مسح کیا۔
(ابوداؤد شریف ، حدیث 159 )

امام ابوداؤد مذکورہ حدیث کے تحت آگے لکھتے ہیں


کَانَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَھْدِیٍّ لَایُحَدِّثُ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ لِاَنَّ الْمَعْرُوْفَ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ مَسَحَ عَلَی الْخُفَّیْنِ ۔ یعنی: حضرت محدث جلیل عبدالرحمان بن مہدی اس حدیث کو بیان نہیں کرتے تھے کیونکہ حضرت مغیرہ سے خفین (چمڑے کے موزے ) والی حدیث مشہور ہے
(ابوداؤد شریف ، حدیث 159 )

مذکورہ حدیث کے تحت حضرتِ احمد بن الحسین ابوبکر بیہقی (وصال 458ھ ) رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

وَذَاکَ حَدِیْثٌ مُنْکَرٌ ، ضَعَّفَہٗ سُفْیَان ُالثُوْرِیُّ ، وَعَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ مَھْدِیٍّ وَاَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، وَیَحْیَی بْنُ مُعِیْنٍ، وَعَلِیُّ بْنُ المَدِیْنِیِّ وَمُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ ۔ یعنی: یہ حدیثِ منکر ہے جس کو (۱) حضرت سفیان ثوری (۲) عبدالرحمان بن مہدی (۳) احمد بن حنبل (۴) یحیی بن معین (۵) علی بن مدینی (۶) مسلم بن حجاج (صاحبِ مسلم شریف ) نے ضعیف قرار دیا۔
(معرفۃ السنن والاثار جلد 02 صفحہ 122 )
مخالفین حدیثِ مذکور میں لفظ جوربین (جرابیں ) سے استدلال کرتے ہیں۔ اس کی فنی حیثیت میں نے پیش کردی ۔ اب آپ کے سامنے لغوی معنیٰ اِن ہی کے گھر سے پیش کرتاہوں۔


شمس الحق عظیم آبادی (غیر مقلد) نے لکھا

اَنَّ الْجَوْرَبَ یُتَّخَذُ مِنَ الْاَدِیْمِ وَکَذَا مِنَ الصُّوْفِ وَکَذَا مِنَ الْقُطْنِ وَیُقَالُ لِکُلٍّ مِّنْ ھٰذَا اِنَّہٗ جَوْرَبٌ ۔ یعنی: بیشک جورابیں چمڑے کی بنی ہوئی ہوتی ہیں اور اسی طرح اون اور سوت کی بھی ہر ایک کو عربی لغت میں جورب کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ (عون المعبود، صفحہ 104 ) معلوم ہوا لفظ جورب کے معنیٰ میں دونوں احتمال پائے جاتے ہیں


آگے جاکر مزید لکھا

لٰکِنْ تَرَجَّحَ الْجَانِبُ الْوَاحِدُ َوھُوَ کَوْنُہٗ مِنْ اَدِیْمٍ لِاَنَّہٗ یَکُوْنُ حِیْنَئِذٍ فِی مَعْنَی الْخُفِّ وَیَجُوْزُالمَسْحُ عَلَیْہِ قَطَعاً وَاَمَّا الْمَسْحُ عَلٰی غَیْرِ الْاَدِیْمِ فَثَبَتَ بِالْاِحْتِمَالَاتِ الَّتِیْ لَمْ تَطْمَئِنَّ النَّفْسُ بِھَا۔ یعنی : لیکن ایک جانب راجع ہے اور وہ چمڑے کے بنے ہوئے ہوناہے، کیونکہ اس وقت جورب خُف کے معنی میں ہوگا اور خُف پر مسح کرنا یقینی طور پر جائز ہے اور رہا ایسے موزے پر مسح کرنا جو چمڑے کے نہ بنے ہوئے ہوں ، یہ وہ احتمالات ہیں جس پر ضمیر مطمئن نہیں۔
(عون المعبود ، صفحہ 105)
محمد نذیر حسین (غیر مقلد) نے لکھا:جراب (موزے) سوتی بھی ہوتی ہے اور اونی بھی ، موٹی بھی اور باریک بھی اور وہ بھی جس کے نیچے چمڑا لگاہوتاہے۔
(فتاویٰ نذیریہ، جلد 01 ، صفحہ 331)
محمد نذیر حسین (غیر مقلد) نے لکھا:مذکورہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے، کیونکہ اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ (فتاویٰ نذیریہ، جلد 01 ، صفحہ 327) مخالفین کے حوالوں سے واضح ہوا مروّجہ سوتی یا اونی موزوں پر مسح جائز نہیں


وما علی الاالبلاغ

Mufti Waseem Ziyai - Copyright 2020